ہم گاؤں کے لوگ اور ہمارا منافق معاشرہ
ہم برملا کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ ہمارا شیوہ رہا ھے لوگوں ک نجی زندگیوں میں بے جا مداخلت کرنا ،کامیاب لوگوں کی ٹانگیں کھینچنا، باپ دادا کی ناراضگی اگلی نسل کو ورثہ میں دینا، چند پیسے کما کے مشہور ہونے مسجد و امام بارگاہ میں پیش پیش ہونا ، زمینوں میں تجاوزات کرنا ، بیواوں کی حق تلفی کرنا ، فصلوں کی زمین میں مویشی باندهنا، پراپرٹی میں خورد برد کر کے حج کرنا ،حج و زاواری کر کے مسجد کی ٹینک کے نل سے گھر کے لئے پانی بھرنا ، غریب پہ ظلم کرنا ،مسجد اور امام بارگاہ کی بنائی گئی انجمن کے پیسہ ڈھکار کے امام بارگاہ میں قمیض اتار کے ماتم کرنا ، بغیر نماز پڑھے فقد سنگتوں میں ماتم کرنا اور نوحے پڑھنا ، خطیب منبر رسول سے جو بھی پڑھے اسپے بغیر تحقیق کیے نعرے مارنا ، پورا سال لوگوں کو تنگ کر کے گھروں سے محرم میں علَم برامد کرنا ، لوگوں کو دکھانے نیاز کی دیگیں تبرک دینا ، سرکاری نوکری کے دوران رشوت، ظلم، زیادتیاں اور ریٹائرمنٹ کے بعد تسبیح، سفید ٹوپی اور مسجد کی پہلی صف میں نماز پڑھنا - جب ہم گناہ کے قابل نہیں رہتے تو تب ہم سب مسجد کا رِخ کر لیتے ہیں- ایسی عبادات کی شاید ہی کوئی قبولیت ہو - نہ انسان کی عقل سلیم اور ضمیر اس ریاکاری اور منافقت کے حق میں ھے نہ مشیت ازدی- ہمارا دہرا میعار ہمارے منہ پہ مارا جایگا-
یہی ہمارے معاشرے کی حقیقت اور اسکا مسخ چہرہ ھے جو بہت کم لوگوں کو نظر آتا ھے - اگر عورت پہ بات کی جاۓ تو صرف کچن اور بچے پالنے سے فرصت نہیں ،کچھ لوگ ہیں جو عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ لے کے چلتے ہیں باقی تو ایسے ہیں کہ عورت پہ راج کرنے کو مردانگی گردانتے ہیں- عورت بھی کچھ کم نہیں ساس کو گونگی چپ کر کے کام کرنے والی بہو چاۓ پر بیٹی کا اپنے سسرال میں راج ضرور ہو ، بیٹی اپنے سسرال کام نہ کرے لیکن میکا جاۓ تو ایسی فرشتہ صفت بن کےوالدین کے سامنے نمبر بڑھانے سب کام کرے تاکہ بھائی اور بھابیوں کی درگت بنے- کچھ والدین کی بھی غلطی ھے جو بیٹی کے ذرا سے کام کو پہاڑ اور بہو کی ساری محنت کو نظر انداز کرتے ہیں-
معاشرے کے کچھ زی شعور ضرور ہیں جو بولتے ہیں اور معاشرے پے مثبت تنقید کرتے ہیں لیکن انھیں بھی بزرگ چپ کرا دیتے ہیں جو نہیں بولتے انکو ہانکا جاتا ھے - آخر کب تک یہ سب چلتا رہیگا ہمارے معاشرے کی سیاست بھی انوکھی ،کب تک ہم جاگیر داروں اور اشرافیہ کو اگلی نشت دیتے رہینگے ،کب تعلیم اور ذہانت کی قدر ہوگی؟ ہم پے تو ایسے لوگ قابض ہیں جنہیں ٹھیک سے بولنا بھی نہیں آتا وہ کیا ہماری نمائندگی کریں گے پر افسوس ھے بہت سے تعلیم یافتہ لوگوں پر جو اشرافیہ کے آگے سر تسلیم خم ہیں- کیا نمائندگی و قیادت کا میعار صرف دولت،طاقت اور موروثی سیاست ھے یا پھر اہلیت کو بھی دیکھنے کی ضرورت ھے - ہمارے غریب سیاست سے کیوں اتنے خوف زدہ ہیں حلانکہ سب سے زیادہ سیاست کا اثر ان پر ہوتا ھے خوف زدہ بھی کیوں نہ ہوں اشرافیہ چند نوکریوں کے عوظ انھیں خرید لیتے ہیں پھر انکا استحصال ہوتا ھے ، کیا ہماری قیمت اور اوقات چند نوازشیں ہیں جو کہ موت یا شادی تک محدود ہیں -
ہمیں سوچنے کی ضرورت ھے - ہم ہی اس معاشرے کو بدل سکتے ہیں اور اس میں نئی روح پھونک سکتے ہیں ورنہ ہماری اگلی نسل بھی اشرافیہ کی نزر ہو چکی ہوگی خدا را اپنی مغلوب سوچ سے باہر نکلیں ، اپنی سوچ کو بدل لیں وہ تب ممکن ھے جب دنیا کے معملات کو عقلی پیمانے پے دیکھیں گے ، تعلیم و آگاہی کو عام کریں گے ،مثبت سوچ کو ترجیح دینگے،عورت کو جوتی نہیں بلکہ معاشرے کی اکائی سمجھیں گے ، نفرت و اناد سے بالا تر ہو کے ایک دوسرے کی مدد کریں گے ، ایک دوسرے کی حق تلفی نہیں کریںنگے ،مظلوم کا ساتھ دینگے ،عبادات میں دیکھاوے سے باہر نکل کر اللہ کی رضا کے لئے لوگوں کی خدمت کریںگے ،رشوت ترک کریں گے ،منافقت چھوڑ دیں گے - لوگوں کا پیسہ اور پیشہ دیکھ کے عزت دینا بند کریں گے ،باپ دادا کی ان فرسودہ روایات کو رد کریں جو معاشرے کا ناسور ہیں - یوں ایک ترقی یافتہ معاشرے کو تشکیل دیکر ایک ذمہ دار عاقل اور زی شعور انسان ہونے کا ثبوت دیں!
----------+++-----------
Comments
Post a Comment
Ask for further queries.