"کرونا اور علماء کا کردار "
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان کے علماء میں زیادہ تر نے اپنی ڈھیڈ انچ کی مسجد بنائی ہوتی ھے اور منبر سے نت نیے فتووں سے عوام میں اشتعال پھیلاتے ہیں پھر جب سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوتا ھے تو بلکل ٹھیک ہوتے ہیں- میری ناقص عقل کا یہ ماننا ھے کہ دین اتنا مشکل نہیں جتنا ان لوگوں نے بنا دیا ھے - دین انسان کے لئے آسانیاں پیدا کرتا ھے- ایسے حالات میں دین بتاتا ھے کہ ہم اپنے گھروں میں رہیں تاکہ کسی اور کا گھر نہ اجڑے
کچھ علماء کا یہ ماننا ھے کہ مساجد کو بند نہیں کرنا چاہے - کعبہ ،مسجد نبوی ،مشہد، نجف بند ہو گئے پر بند نہیں تو صادق آباد کی ایک مینار والی مسجد - لوگ جوق در جوق جماعت کے لئے جاتے ہیں ،جمعہ بھی کندھے سے کندھا اور ٹخنہ سے ٹخنہ سے ملا کے ہوتا ھے - ہم تبلیغ میں بھی اسی عقیدت سے جاتے ہیں بس چند کپڑے ،مسواک اور چپل - کرونا سے کیا ہونا ھے جہاں موت آنی ھے آ جاۓگی - کیا یہ روش ٹھیک ھے ؟
کچھ دن پہلے طارق جمیل کا ایک بیان آیا پھر بعد میں دوسرا جو پہلے سے بلکل مختلف ،علامہ جواد نقوی کو سننے کا اتفاق ہوا موصوف بھی مسجد کو بند کرنے کے حق میں نہیں- یہی لوگ ہیں جو لوگوں کے کنفیوژن کو بڑھا دیتے ہیں بندہ علماء کو سنے یا پھر ریاست کو ؟ اگر تمام مکاتب فکر کے علماء ریاست کا ساتھ دیں تو شاید مزید اموات نہ ہوں - مساجد سے گھروں پے رہنے کی تلقین کی جاۓ نہ کہ جھوٹی تسلی دے کے بلایا جاۓ اور لوگوں کا جم غفیر اکھٹا کر کے ریاست کے خلاف ورغلایا جاۓ - ضمیر اختر نقوی نے کرونا کا حل تلاش کر لیا اب بتا نہیں رہے انکے اپنے تحفظات ہیں
کوئی کرونا کو شیعہ سمجھ کے ایران سے مربوط کرتا ھے کوئی سنی دیوبندی سمجھ کے سعودیہ سے اور پھر آپس میں بحث و مباحثے - یہ سب کیوں ہوتا ھے کیونکہ علماء نے اپنا کردار ٹھیک سے نہیں سر انجام دیا - علماء کبھی بھی متفق نہ ہوے نہ اثنا عشری نہ اہل سنّت یہ موقع ھے جب یہ سب ایک پیج پے آ سکتے ہیں مگر نہیں سیاست بھی تو کرنی ھے دکان جو بند ہوگی
اگر ہر مسجد سے ریاست کے موقف کی تائید ہو اور مکمل لاک ڈاؤن کی حمایت کی جاۓ تو مسجد بند کرنے پے مسجدوں کے باہر صفیں نہ بنیں ،لوگ تبلیغ پے نہ جایں ،اجتماعات نہ ہوں اور لوگوں کی جانیں محفوظ ہوں
Comments
Post a Comment
Ask for further queries.